تیسویں برس کے چوتھے مہینے کی پانچویں تاریخ کو یوں ہوا کہ جب میں نہر کبار کے کنارے پر اسیروں کے درمیان تھا تو آسمان کھل گیا اور میں نے خدا کی رویتیں دیکھیں۔
اور میں نے نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ شمال سے آندھی اٹھی۔ایک بڑی گھٹا اور لپٹتی ہوئی آگ اور اس کے گرد روشنی چمکتی تھی اور اس کے بیچ سے یعنی اس آگ میں سے صیقل کئے ہوئے پیتل کی سی صورت جلوہ گر ہوئی ۔
ان کے چہروں کی مشابہت یوں تھی کہ ان چاروں کا ایک ایک چہرہ انسان کا۔ ایک ایک شیر ببر کا انکی دہنی طرف اور ان چاروں کا ایک ایک چہرہ سانڈ کا بائیں طرف اور ان کا ایک ایک چہرہ عقاب کا تھا۔
رہی ان جانداروں کی صورت سو ان کی شکل آگ کے سلگے ہوئے کوئلوں اور مشعلوں کی مانند تھی۔ وہ ان جانداروں کے درمیان ادھر اُدھر آتی جاتی تھی اور وہ آگ نورانی تھی اور اس میں سے بجلی نکلتی تھی۔
جہاں کہیں جانے کی خواہش ہوتی تھی وہ جاتے تھے۔ انکی خواہش ادھر ہی ان کو لے جاتی تھی اور پہئے ان کے ساتھ اٹھائے جاتے تھے کیونکہ جاندار کی روح پہیوں میں تھی۔
جب وہ چلتے تھے یہ چلتے تھے اور جب وہ ٹھہرتے تھے یہ ٹھہرتے تھے اور جب وہ زمین پر سے اٹھائے جاتے تھے تو پہیے بھی ان کے ساتھ اٹھائے جاتے تھے کیونکہ پہیوں میں جاندا کی روح تھی۔
اور جب وہ چلے تو میں نے ان کے پروں کی آواز سنی گویا بڑے سیلاب کی آواز یعنی قادر مطلق کی آواز اور ایسی شور کی آواز ہوئی جیسی لشکر کی آواز ہوتی ہے ۔ جب وہ ٹھہرتے تھے تو اپنے پروں کو لٹکا دیتے تھے۔
اور اس فضا سے اوپر جو ان کے سروں کے اوپر تھی تخت کی صورت تھی اور اسکی صورت نیلم کے پتھر کی سی تھی اور اس تخت نما صورت پر کسی انسان کی سی شبیہ اس کے اوپر نظر آئی۔
اور میں نے اس کی کمر سے لیکر اوپر تک صیقل کئے ہوئے پیتل کا سارنگ او رشعلہ سا جلوہ اسکے درمیان اور گردا گرد دیکھا اور اس کی کمر سے لیکر نیچے تک میں نے شعلہ کی سی تجلی دیکھی اور اسکی چاروں طرف جگمگاہٹ تھی۔
جیسی اس کمان کی صور ت ہے جو بارش کے دن بادلوں میں دکھائی دیتی ہے ایسی ہی آس پاس کی اس جگمگاہٹ کی نمود تھی یہ خداوند کے جلال کا اظہار تھا اور دیکھتے ہی میں اوندھے منہ گرا اور میں نے ایک آواز سنی جیسے کوئی باتیں کرتاہے۔